وجودیت اور انسان دوستی | Wajodiyat Or Insan Dosti | Jea Paul Sartre

Sale!

 240.00  300.00

وجودیت-اور-انسان-دوستی

Add to wishlist
Share

     

    معاصر فلسفیانہ تحریکوں میں سے وجودیت کے بارے میں غالبا سب سے زیادہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو اس کی وسیع تر مقبولیت ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ عام طور پر اسے فکری انداز کی بجائے ادبی حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
    اپنی محدود ترین تشکیل میں وجویت ایک ایسا ما بعد الطبیعیاتی نظریہ جو یہ دعوی کرتا ہے کہ فرد کے جوہر کا تعین اس کے وجود کے اظہار کے بعد ممکن ہے۔ یہ نظریہ فرد کی آزادی کا اعلان کرتا ہے۔
    وجودی فکر کا آغاز ژاں پال سارتر سے نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی فلسفہ اور مذہب میں اس فکر کے منابع موجود تھے لیکن وجودیت کی عام مقبولیت بہر طور سارتر کی مرہون منت ہے۔
    یہاں سارتر کے شہرہ آفاق خطبے L, EXISTENTIALISME EST UN HUMANISME کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ قاضی جاوید نے کیا ہے۔ سارتر نے یہ خطبہ 1945 میں پیرس کے ایک کلب میں دیا تھا۔ اس میں وجودیت کا دفاع انسان دوستی کے سچے نظریے کے طور پر کیا گیا ہے۔ فرانسیسی زبان میں یہ خطبہ پہلی بار 1946 میں شائع ہوا تھا۔ انگریزی میں “وجودیت اور انسان دوستی” کے عنوان سے اس کا ترجمہ فلپ میرٹ نے کیا جو امریکہ میں صرف “وجودیت” کے عنوان سے شائع ہوا۔ اردو ترجمہ میرٹ کے انگریزی ترجمے پر مبنی ہے۔
    اس کتاب کو مشعل بکس لاہور نے شائع کیا ہے ان سے درج ذیل لنک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
    صفات 88

    Reviews

    There are no reviews yet.

    Be the first to review “وجودیت اور انسان دوستی | Wajodiyat Or Insan Dosti | Jea Paul Sartre”

    Your email address will not be published. Required fields are marked *