ناول “موسی کا مقدمہ” کا ایک اقتباس۔۔۔۔ ناول نیچے دیے گئے نمبر پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔!!!!
میں کبھی بھی موسی کے لیے نہیں رویا، میں نے آسمان کی جانب اس طرح سے دیکھنا ہی چھوڑ دیا جس طرح میں پہلے دیکھا کرتا تھا۔ مزید کچھ سالوں بعد، میں نے آزادی کی جنگ میں بھی کوئی حصہ نہ لیا۔ میں جانتا تھا کہ اس کو پہلے ہی جیتا جا چکا ہے، اسی لمحے سے جب میرے خاندان کا پہلا فرد اس راہ میں مارا گیا تھا کیونکہ کوئی سورج سے بہت سُستی محسوس کرتا تھا۔ جونہی میں نے پڑھنا لکھنا سیکھا، سب کچھ مجھ پہ واضح ہوتا چلا گیا۔ میرے پاس میری ماں تھی جبکہ موسی نے اسے کھو دیا تھا۔ وہ مر گیا لیکن میں جانتا تھا کہ یہ خودکشی کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اب، یہ سچ ہے کہ میں منظراور کردار بدلنے سے پہلے نتائج پر پہنچ چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں یہ محسوس کرتا کہ ہم دونوں ایک جیسے کیسے تھے، وہ اور میں، جو ایک ہی جیل میں قید تھے اور ہم ایسی جگہ پر بند تھے جہاں جسموں کی لبادوں سے زیادہ اہمیت نہ تھی۔
اور اس لیے اس قتل کی کہانی اس مشہور جملے سے شروع نہیں ہوتی، ”مامن آج مر گیا۔“ لیکن یہ ایسے الفاظ ہیں جو کبھی کسی نے نہیں سنے ہونگے جو میری ماں کو میرے بھائی موسی نے اس آخری دن اپنے باہر جانے سے کچھ دیر پہلے کہے تھے، ”میں معمول سے جلد گھرواپس آجاؤں گا۔“ یہ پہلا دن تھا جو اس کے بغیر تھا۔مجھے یاد ہے، یاد رکھیں جو میں نے آپ کو اپنی دنیا اور اس کی تاریخوں کے کیلنڈر کے بارے میں بتا یا ہے:وہ سارے دن میں نے اپنے باپ کے بارے میں افواہوں کے ساتھ اور بغیر؛ موسی کی سگریٹ نوشی، ماں کے ساتھ جھگڑوں اور خود کو فرینچر کا ایک قابل مرمت ٹکڑا سمجھ کر دیکھنے کی نذر کئے۔ حقیقت میں، یہی میں اب محسوس کرتا ہوں۔میں نے بھی وہی کیا جو موسی نے کیا تھا۔ اس نے میرے باپ کی جگہ لی اور میں نے اپنے بھائی کی جگہ۔ لیکن تھوڑا انتظار کریں، میں اس کے متعلق آپ سے جھوٹ بول رہا ہوں، بالکل اسی طرح جس طرح میں بڑی مدت سے خود سے جھوٹ بول رہا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ آزادی نے دونوں اطرا ف کے لوگوں کو صر ف اپنے فرائض بدلنے کی جانب دھکیلا تھا۔ ہم اس ملک میں بھوتوں کی طرح تھے جب آباد کار اس کو تباہ و برباد کر رہے تھے اور اپنی راج ہنسوں، گرجے کی گھنٹیوں اور سرو کے درختوں کے ساتھ تسلط قائم کر رہے تھے۔ اور آج؟ بالکل ہی مختلف حالت ہے! وہ کبھی کبھار واپس آتے ہیں، اپنی اولاد کا ہاتھ تھامے، ان رنگ برنگے دوروں پر جو ان لوگوں کے لیے تشکیل دیئے جاتے ہیں جو ان کے والدین کے پاگل پن کا شکار ہوئے۔وہ کوئی گھر، گلی یا درخت ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں جو قدرتی طور پر اپنے تنے سے مڑا ہوا ہو۔ میں نے ابھی ابھی فرانسیسی سیاحوں کا ایک گروہ دیکھاجو ائیرپورٹ پر ایک تمباکو کی دوکان پر کھڑا تھا۔ کسی ہوشمند، گُنگے تماشائی کی طرح انہوں نے ہمیں دیکھا۔۔۔ہم عربی۔۔۔ خاموشی سے جیسا کہ ہم کچھ بھی نہ تھے لیکن صرف پتھر یا مردہ درخت تھے۔ تاہم اب یہ سب ختم ہو چکا ہے۔ یہی سب کچھ ان کی خاموشی نے کہا۔
Related
Be the first to review “موسی کا مقدمہ | Mosi KA Mukadma” Cancel reply
Reviews
There are no reviews yet.