قدرتی آفات کی مادی و منعوی وجوہات
Sale!₨ 300.00 ₨ 400.00
Add to wishlist
Share
CategoryCriticism And Research
قدرتی آفات کی مادی و منعوی وجوہات
ڈاکٹر عزیز خان
“قدرتی آفات کی مادی و معنوی وجوہات” کتاب از عزیزہ خان
قدرتی آفات کی آمد کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جب سے کائنات کا وجود عمل میں آیا ہے قدرتی آفات ہر دور بلکہ انیاء کے دور میں بھی آتی رہی ہیں اور اس دنیا کے لوگ ان قدرتی آفات زلزلہ، سیلاب، طوفان اور وبائی امراض وغیرہ کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ ان تمام پر سائنس اپنا ایک خاص نقطہ نظر رکھتی ہے۔ یقینا وہ سائنسی علم اپنے معیار اور کسوٹی کے مطابق اپنے نقطہ نظر کو درست سمجھتا ہے۔ ان قدرتی آفات کے وقوع کا ایک مذہبی نقطہ نظر بھی ہے کہ یہ کیوں وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ان کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ایک مسلمان کی حیثیت سے کیا اس کے صرف سائنسی پہلو پر نظر رکھنی چاہئے یا اس کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کی اصلاح بھی کرنا چاہئے۔
پاکستان ان دنوں بہت بڑی تباہی سے دوچار ہے ایک تہائی ملک زیر آب ہے اور ہر طرف آہ و بکا پھیلی ہوئی ہے۔ سیلاب نے بستیاں کی بستیاں اجاڑ دیں، کھیت کھلیان، عمارتیں، گھربار، مال مویشی سب پانی میں بہہ گئے۔اس تاریخی تباہی کی موسمی، سائنسی، مذہبی اور معاشرتی وجوہات کیا تھیں؟ زیر نظر کتاب ” قدرتی آفات کی مادی و معنوی وجوہات “از عزیزہ خان کی روشنی میں ان تمام پہلوؤں جائزہ لیا جا سکتا ھے دنیا کی تاریخ حادثات اور قدرتی آفات سے بھری پُری ہے، بعض حادثات وآفات نے تو انسانی آبادی کے بڑے حصے کو چشم زدن میں صفحہٴ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا، آفات کئی طرح کی ہوتی ہیں، مثلا سیلاب، طوفان، وبائی امراض؛لیکن انسانی زندگی پر زلزلے کے بعد سیلاب کے اثرات دیگر قدرتی آفات کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک اور دیر پا ہوتے ہیں، سیلابوں کی ہلاکت خیزی جنگوں اور وبائی امراض سے کہیں زیادہ ہے، نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلابی پانی سے زندہ بچ جانے والے افراد پر برسوں شدید حزن وملال، پژمردگی، خوف اور ڈراوٴ نے خواب مسلط رہتے ہیں ایک اندازہ لگایا گیا ہے کہ اب تک آنے والے سیلابوں سے کروڑوں انسانوں کو ہلاک ہو چکے ہیں اور مالی نقصانات کا شاید کوئی حساب ہی نہیں کیا جاسکتا
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ایک ایسے نظام کا تجربہ کیا جا رہا ہے جو زلزلے، سیلاب اور سونامی جیسی قدرتی آفات کی پیشگی تنبیہہ جاری کر سکے۔ سائنسدان اس مقصد کے لیے جی پی ایس ٹیکنالوجی اور دیگر سینسر استعمال کر رہے ہیں تاکہ آنے والی قدرتی آفات کے خطرے کی نشاندہی کی جاسکے۔ یہ سب سے پہلے نظام جنوبی کیلیفورنیا میں نصب کیا گیا ہے جہاں سائسندانوں کو یہ پہلے ہی سیلابی ریلیوں سے خبردار کر چکا ہے۔ سکرپس انسٹیٹیوٹ آف اوشن گرافی کے ڈاکٹر یہودہ بوک کا کہنا ہےکہ ’اس سے عوام کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں آسانی ہوگی۔‘ کسی بھی قدرتی آفت سے پہلے کے منٹ حتٰی کے سیکنڈز بھی اہم ہوتے ہیں۔ پیشگی تنبیہہ کے نظام سے ہنگامی خدمات کے اداروں کی تیاری اور ردعمل زیادہ موثر جائے گا اور یہ عوام کو اہم معلومات مہیا کر سکتے ہیں۔ کیلیفورنیا میں ماہرین اس نظام کے ایک نمونے سے خطرات کی اقسام کی جانچ کر رہے ہیں۔ یہ نظام پہلے سے موجود جی پی ایس نیٹ ورک پر قائم کیا گیا ہے جو سیٹیلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے کسی بھی زمینی حرکت کی تفصیلی پیمائش حاصل کرتا ہے۔اس میں زلزلے سے خبردار کرنے والے سینسرز اور کچھ دیگر آلات نصب کیے گئے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر بوک کہتے ہیں ’جی پی ایس اور دیگر سینسرز سے حاصل ہونے والے ڈیٹا یکجا کر کے ہم زلزلے اور دوسرے واقعات کے دوران سرکاؤ کی پیمائش کر سکتے ہیں۔‘انہوں نے بتایا کہ یہ نظام کسی بڑے زلزلے سے پہلے آنے والے جھٹکوں کی نشاندہی کر سکتا ہے اور اس کی شدت کا صحیح اندازہ لگانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا سکتا ہے کہ آیا اس کے نتیجے میں سونامی کا خطرہ ہے یا نہیں۔ جی پی ایس سینسرز اور موسمیاتی آلات ماہرین کو ہوا میں نمی کے تناسب کی جانچ میں بھی مدد دیتے ہیں۔ ناسا کی جیٹ پرپلژن لیبارٹری کی ڈاکٹر اینجلین مورے کا کہنا ہے کہ ’یہ شاید حیران کن ہو کہ ہم موسمیاتی خطرات کی جانچنے کے لیے جی پی ایس استعمال کر رہے ہیں لیکن جی پی ایس ایک موسمیاتی آلہ ہی ہے۔‘ ایک تجربے کے دوران اس نظام کی مدد سے اچانک آنے والے سیلابوں کی بروقت اطلاع میں مدد ملی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی سستی ہے اور یہ نظام پوری دنیا میں پھیلایا جا سکتا ہے
Related
Be the first to review “قدرتی آفات کی مادی و منعوی وجوہات” Cancel reply
Reviews
There are no reviews yet.