قائم دین | علی اکبر ناطق | Qaim Deen

Sale!

 450.00  600.00

Add to wishlist
Share
    علی اکبر ناطق سے میرا پہلا تعارف نولکھی کوٹھی کے ذریعے ہوا جس کا تبصرہ آپ کو اسی پیج پر مل جائے گا۔۔۔نولکھی کوٹھی نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے نا طق صاحب کی تمام کتابیں خرید لی۔۔۔اور آج میں نے ناطق صاحب کی افسانوں کی کتاب قائم دین بک شیلف سے اٹھائی اور اس کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔۔۔قائم دین 15 افسانوں کا خوبصورت مجموعہ ہے۔۔۔افسانوں کی اس کتاب کو پہلے آکسفورڈ اردو میں چھپ چکا ہے اس کے بعد بھی دوبارہ اسی ادارے سے شائع ہوئی پھر اسے علی مدیح ہاشمی نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔۔۔تب یہ انڈیا کے ادارے پینگوئین سے چھپی۔۔۔پھر اس کتاب کے حقوق ناطق صاحب نے ایک ادارے کو دیئے اور وہ اس کتاب کو چھاپتے رہے پھر یہ کتاب سفر کرتے ہوئے بک کارنر جہلم سے چھپی تو ناطق صاحب کو سابقہ تمام ایڈیشن سے یہ ایڈیشن زیادہ خوبصورت لگا جو میرے ہاتھ میں ہے کیونکہ امر شاہد اور گگن شاہد صاحب کتابوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔یعنی اس کتاب نے کافی داد حاصل کی۔۔۔ویسے تو میں طویل اور رخیم ناول پڑھنے کا عادی ہوں مگر اس مرتبہ ناطق صاحب کی کتاب دیکھی تو دل مچلا کے چلو ناطق صاحب کے افسانے پڑھتے ہیں۔۔۔میری لائبریری میں بہت سی افسانوں کی کتابیں پڑھی ہیں جن میں منٹو صاحب عصمت چغتائی صاحبہ بلونت سنگھ قدرت اللہ شہاب صاحب خدیجہ مستور صاحبہ اور بڑے بڑے افسانہ نگار شامل ہیں۔۔۔یعنی کہ یہ پہلی افسانوں کی کتاب ہے جس کا میں نے مطالعہ کیا ہے۔۔۔کتاب میں پہلا افسانہ اچھو بازیگر ہے جس میں آپ کو حسد بغض کے ساتھ اپنے بچپن کی اصل تصویر نظر آئے گی۔۔۔کم از کم میں نے تو اپنے اسکول دور کے زمانے میں جب پرائمری کے بعد ہائی سکنڈری سکول میں داخلہ لیا تھا تو یہ واقعات اردگرد رونما ہوتے دیکھے تھے اوپر سے ناطق صاحب کی منظر نگاری۔۔دوسرا افسانہ بے چارگی ہے جو واقعی بے چارگی کے موضوع پر ہے جس میں سیاست غیرت بازار حسن اور سبق کا زبردست ٹڑکا آپ کو پڑھنے کو ملے گا۔۔۔تیسرا افسانہ قائم دین ان 15 افسانوں کی جان ہے جس میں ناطق صاحب نے دیہاتی زندگی کی شاندار منظر نگاری کی ہے جس سے آپ کو ایسا ہی لگتا ہے جیسے آپ اسی ماحول کا حصہ ہوں اور سب کچھ آپ کے سامنے ہو رہا ہوں ویسے بھی دیہات کھیت کھلیان ناطق صاحب کے قلم کا خاص موضوع رہے ہیں میں ویسے بھی نولکھی کوٹھی پڑھنے کے بعد ناطق صاحب کے قلم کا دل سے قائل ہوا ہوں وہ اپنے قلم کے کیمرے کے ذریعے اتنی زبردست منظرنگاری کرتے ہیں کہ کوئی فلم ڈائریکٹر بھی ایسی عکاسی نہیں کر سکتا ہے۔۔۔قائم دین دل کو موہ لینے والا ایک شاہکار افسانہ ہے جس نے مجھے اردگرد سے بالکل بیگانہ کر دیا تھا۔۔۔قائم دین میں آپ کو دیہات کا ہر رنگ پڑھنے کو ملے گا اور خاصکر قمے کا کردار تو آپ کو بہت متاثر کرے گا۔۔۔وہ قائم دین عرف قما جو گاؤں کا ہیرو تھا گاؤں کے لوگوں کا مددگار تھا اس پر حالات نے کیسے پلٹا کھایا آپ غم گین ضرور ہوں گے۔۔۔کتاب کا چوتھا افسانہ جودھ پور کی حد ہے یہ افسانہ ہر دیہات کی کہانی ہے جو کچھ زمینداروں وڈیروں کے گھروں میں ہوتاہے یعنی زن زر اور زمین وہی اس افسانے کا موضوع ہے یہ افسانہ غفور بوندھو کا ہے جو تھا تو ایک بڑے زمیندار کا نواسا مگر طلاق شدہ ماں کے ساتھ نانے کے گھر آیا تو نانے کی زندگی میں تو خوب عیش اٹھائی مگر نانے کی زندگی کی بتی گل ہونے کے بعد زمیندار مامے اور اس کے بیٹے کے ظلم سہتا رہا مگر ات خدا دا ویر۔۔۔کریمأں نے اس کی زندگی میں ہلچل مچا دی۔۔۔کتاب کا پانچواں افسانہ کمی بھائی ہے جو کمیوں اور زمینداروں کی جنگ ہے اور ناطق سر نے اس افسانے میں یہ بھی بتایا ہے کہ جو کمی چاپلوسی میں زمینداروں کا ساتھ دیتے ہیں وہ بھی کمی ہی رہتے ہیں۔۔۔افسانہ کافی سبق آموز اور عبرت انگیز تھا۔۔۔چھٹا افسانہ معمار کے ہاتھ ہے جو ان افسانوں کا جھومر ہے ایک کاریگر کا بیٹا اصغر جو سعودی عرب میں کام کے سلسلے میں جاتا ہے اور پھر اسے کیا کیا تکلیفیں سہنی پڑتی ہیں یہ آپ کو اس افسانے میں پڑھنے کو ملے گا اس کے علاوہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا پر کیف سفر نامہ بھی آپ کو اس افسانے میں پڑھنے کو ملے گا۔۔۔مجھ پر ایک عجیب سرور طاری تھا۔۔۔افسانے کے آخر میں میں کافی غمگین ہو گیا تھا دوسرے ملکوں میں کام کرنے والوں کو کیا کیا مشکلات سہنی پڑتی ہیں اور کام ملتا بھی ہے کہ نہیں یہ اس افسانے کے موضوعات ہیں۔۔ساتواں افسانہ مولوی کی کرامت ہے جو مزاح سے بھرپور ایک خوبصورت افسانہ ہے افسانے میں ایک مولوی صاحب کی ہر بد دعا تو قبول ہو جاتی تھی مگر دعا قبول نہیں ہوتی تھی لیکن پھر ایک کتے کی وجہ سے ان کی بد دعا میں بھی اثر ختم ہونا شروع ہو گیا اور پھر مولوی صاحب نے ایک عجیب کام کیا جو آپ کو ہنسائے گا بھی اور حیرت میں بھی مبتلا کرے گا۔۔۔آٹھواں افسانہ مومن والا کا سفر ہے یہ افسانہ بھی مزاح سے بھرپور ہے اور افسانے کے دو کردار نذیراں اور لال دین ایسے کردار آپ کو ہر گاؤں میں نظر آئیں گے اور آخر پر تو آپ اپنی ہنسی روک ہی نہیں پائیں گے۔۔۔۔افسانہ پڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں بھی کبھی ہچکولے کھاتے ہوئے ٹانگے میں بیٹھا ہوں اور کبھی ندی میں نہا رہا ہوں۔۔۔نواں افسانہ نرینہ اولاد ایک غمگین افسانہ ہے بابا کانا ٹائم پاس جیسا کردار دیہاتوں یا قصبوں کے گلی محلوں میں اکثر نظر آتا ہے ایسا ہی ایک کردار بچپن میں میں نے اپنے محلے میں بھی دیکھا تھا۔۔۔دسواں افسانہ شہابو خلیفہ کاشک بھی دیہات کا ہی ایک رنگ ہے اور اس افسانے کا موضوع وہ دیہاتی لوگ ہیں جو کتوں کی لڑائی کے شوقین ہوتے ہیں ناطق صاحب کا یہ افسانہ بھی مزاح سے بھرپور سماجی افسانہ ہے جسے پڑھتے ہوئے آپ بار بار مسکرائیں گے۔۔۔۔گیارہواں افسانہ شاہ مدار کی پازیبیں کبوتر بازوں اور مرغوں کی لڑائی کروانے والے لوگوں کا افسانہ ہے جو ایک ہلکا پھلکا افسانہ تھا۔۔۔بارواں افسانہ شاعری کا ایک خوبصورت افسانہ تھا یا یوں کہیے کہ چودھریوں کے منہ پر چپیڑ تھی۔۔۔جو خود کو باعزت تو کہتے ہیں مگر مطلب کے وقت اپنی عورتیں بھی آگے کر دیتے ہیں۔۔۔افسانے کی کہانی ایک سکھ کی کہانی ہے جو تقسیم کے وقت اپنی مسلمان معشوقہ کے لیے مسلمان ہو جاتا ہے ۔۔۔۔میں نے دیکھا ہے کہ تقسیم ہند نے جو نفرت کا بیج بویا ہے وہ دن با دن پھیلتا اور پھیلتا جا رہا ہے اور یہ نفرت ہماری نسلوں کو تباہ کر رہی ہے۔۔۔۔دوسری بات جو میں نے شدت سے محسوس کی ہے کہ سیکھو ں نے اسلام تو ضرور قبول کیا مگر اندر سے سیکھ ہی رہے بلکہ مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے مسلمانوں میں ذات پات کی پھوٹ ڈال دیں اور آج تک جدید دور ہونے کے باوجود ساتھ پاک کا یہ ناسور دیہات بلکہ شہروں میں بہت زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے جو کم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتا جا رہا ہے انسان کا انسان ہونا سب سے اچھی بات ہے کیونکہ اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے مگر کچھ شیطانوں نے ذات پات کے چکر میں انسانوں کو کم تر بنا دیا ہے اور کی تو اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگتے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ خدا تو خدا ہے اور وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں زمین پر ہمیں انسان بن کر رہنا چاہیے نہ اپنے مرتبے سے بڑھنا چاہیے اور نہ ہی کسی کو مرتبے سے گرانا چاہیے ۔۔۔تیرہواں افسانہ تابوت بھی ہلکا پھلکا افسانہ تھا۔۔۔چودہواں افسانہ واٹر کا دوست تقسیم ہند کے بعد کے زمانے کے کالج لائف کا افسانہ ہے۔۔۔اس افسانے کو پڑھنے کے بعد ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ گورے چلے تو گئے مگر ہمارے سرکاری ادارے ان کے غلام ہی رہے بلکہ آج کے دور میں بھی انگریز ہی ہم پر حکمرانی کر رہا ہے کافی سنجیدہ افسانہ تھا یہ جس نے ہمیں یہ بتایا کہ گورے آج بھی ہمارے حکمران ہیں۔۔۔۔پندرہواں افسانہ شیدے نے پگڑی باندھ لی بھی اونچے سنگھاسن پر بیٹھے چودھریوں کا ہی ایک اور شرمناک رنگ ہے جو آپ کو حیرت میں مبتلا کر دے گا ۔۔۔آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قائم دین 15 افسانوں کے پھولوں کا وہ گلدستہ ہے جس کا ہر پھول خوشبودار اور مہک آیا ہوا ہے ناطق صاحب کے قلم کا زیادہ تر موضوع گاؤں کے کھیت کھلیان چوراہے پکڈنڈیاں ہیں جو ایک خوشگوار احساس دلاتا ہے ناطق صاحب کا دعوی ہے کہ ان افسانوں کو پڑھتے ہوئے اگر آپ کو مجھ سےیعنی علی اکبر ناطق سے محبت نہ ہو جائے تو میں جو ٹھا۔۔۔اور یہ بات ان کی سو فیصد سچ بھی ہے مگر مجھے تو ناطق صاحب سے دلی محبت اس وقت ہی ہوگئی تھی جب میں نے نولکھی کوٹھی ناول پڑھا تھا رہی سہی کسر اس افسانوں کی کتاب نے پوری کر دیا ۔۔۔یہ افسانوں کی کتاب کم اورضیخیم کہانیوں کی کتاب زیادہ لگتی ہے کیونکہ ہر افسانہ ایک ضخیم ناول کی حیثیت رکھتا ہے آپ کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے

    Reviews

    There are no reviews yet.

    Be the first to review “قائم دین | علی اکبر ناطق | Qaim Deen”

    Your email address will not be published. Required fields are marked *