”کے-ٹو، برفانی وادیاں“
مصنف: ڈاکٹر محمد اقبال ھُما
فیڈبیک: محمد احسن
خدشہ یہ ہے کہ مَیں کِس منہ سے محترم ڈاکٹر محمد اقبال ھُما کو فیڈبیک دوں؟ سورج کو چراغ کیسے دکھاؤں؟ ایک شاگرد اپنے ایک استاد کے سبق پر اُسے کیا رائے دے سکتا ہے؟ یہ کتاب ”کے-ٹو“ جس انداز میں تحریر ہوئی ہے، اِس کے پروفیشنل اِزم کا جواب نہیں ہے۔ لہذا یہ فیڈبیک تو میں دے رہا ہوں، مگر مَن ہستم نیچ… بہرحال پھر بھی کتاب کے بارے میں کچھ تحریر کرنا اپنی خوش نصیبی سمجھوں گا، اور یہی فیڈبیک کا مقصد ہے۔
جدید سفرنامہ ایک مختلف شکل اختیار کر چکا ہے۔ پہلے زمانوں میں سفرنامہ محض ایک خشک رپٹ ہوتی تھی۔ قدیم سفرناموں میں خشکی کی اہم وجوہات میں سفرنامہ نگار کی شخصیت کے نرم گوشوں کا فقدان سرِ فہرست وجہ تھی۔ اُس وقت تمام توجہ ”جو دیکھا، لکھ دیا“ پر ہوتی تھی اگرچہ یہ بھی قابلِِ قدر سرمایہ تھا۔ ابنِ بطوطہ کا سفرنامہ پڑھیں تو خشکی بلکہ صحرا روح میں اترتے محسوس ہوتے ہیں، پھر بھی ابنِ بطوطہ ہمارا وہ سرمایہ ہے جس نے ہندوستان کی وہ تاریخ لکھی جو شہنشاہوں نے خود نہیں لکھوائی، اپنی ریپوٹیشن کون خراب کرنا چاہتا ہے۔ اب سفرنامہ ایک مختلف شکل اختیار کر چکا ہے۔
جدید سفرنامہ میں ٹریول گائیڈ اور ناول کے درمیان کھینچا تانی رہتی ہے۔ ناول میں دلچسپی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے، قاری کا وقت اچھا گزر جاتا ہے مگر اُس کا علم زیادہ نہیں بڑھ پاتا۔ ٹریول گائیڈ میں علم کا سمندر ہوتا ہے مگر دلچسپی کے ضمن میں قاری کا مَن پیاسا رہ جاتا ہے… چنانچہ جدید سفرنامہ میں اِن دونوں اصناف، ٹریول گائیڈ اور ناول، کو شدید تخلیقی انداز میں بیلنس کرنا پڑتا ہے۔ جو اِس میں کامیاب ہو جائے، وہی سفرناموں کا سکندر ہوتا ہے۔ آپ نے غور کیا ہو گا کہ کئی مثالیں موجود ہیں جب سفرنامہ نگار بالآخر ناول نگار بنا… تارڑ صاحب کی مثال بہترین ہے جنہوں نے بہت بعد میں خالصتاً ناولز لکھ کر اردو ادب میں بلند مقام حاصل کیا۔ تارڑ صاحب کے سفرناموں میں ٹریول گائیڈ سے کہیں زیادہ ناول کا عنصر تھا، اِسی لیے بہت کامیاب ہوئے اگرچہ بہت ساری اہم اور بورنگ معلومات تارڑ صاحب نے حذف کر دیں۔
ڈاکٹر ھُما نے بھی ٹریول گائیڈ اور ناول کی اصناف کے درمیان بہت احتیاط سے بیلنس قائم کیا ہے۔ جہاں اُن کو محسوس ہوا کہ اہم معلومات کی وجہ سے ایسے قارئین بور ہونا شروع ہو جائیں گے جن کا کتاب پڑھ کر سفر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، تو اُنہوں نے بوریت کی تنبیہہ کرتے ہوئے ایسے ابواب الگ کر دیے۔ کتاب ”کے-ٹو، برفانی وادیاں“ میں اُن کا یہ اسلوب بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
پہلے تو میں یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ بطور سفرنامہ نگار، ایک سفر کے دوران جو ”خوش قسمتیاں“ ایک سفرنامہ نگار کا خواب ہوتی ہیں وہ ڈاکٹر صاحب کو بخوبی میسر آئیں۔ ایسے نازک، بلکہ صنفِ نازک مواقع اِن کو نصیب ہوئے کہ یقین کرنے کو دِل ہی نہ چاہا۔ ایک حوصلہ تھا کہ ہو سکتا ہے ایسا نہ ہوا ہو، مگر ڈاکٹر صاحب نے ایسے نازک مواقع کی تصاویر شامل کر کے ثابت کر دیا کہ واقعی ایسا ہوا تھا اور وہ حاسدین کی تعداد میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ بس اِسی بات سے مجھے جلن تھی کہ یہ سب ڈاکٹر صاحب یا تارڑ صاحب کے ساتھ کیوں ہوتا ہے؟ عرصہ بعد اِس کا جواب مجھے یہ ملا کہ یہ کائنات ایسے اہلِ ذوق پر اپنے اسرار زیادہ کھولتی ہے جس نے علم کو آگے بیان کرنے کی ذمہ داری اُٹھائی ہو۔ مصنفین کے حالاتِ زندگی اِسی لیے عوام سے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ یہ باشعور کائنات بہت رکھ رکھاؤ والی ہے۔ یہ مظاہرِ فطرت… یہ پربت، دریا، جنگلات، ریگستان، بحر و خلا… سب محبوب کائنات کے جلوے ہیں۔ اِن جلوؤں کی محض قدر کرنے والا ہی نہیں، بلکہ اِنہیں دوسروں کے سامنے بیان کرنے والے پر یہ کائنات بہت مہربان ہے۔ صِرف صنفِ نازک ہی نہیں، پربتوں کے مخصوص پرائیویٹ مناظر بھی مصنف کا انتظار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام الناس کو بعض دفعہ مصنف کے تجربات من گھڑت لگتے ہیں۔ الحمد الله یہ کائنات مجھ پر بھی بہت مہربان رہی ہے جس کی تفصیل میری دو کتابوں میں درج ہے۔
مَیں ڈاکٹر صاحب کا ایک اور وجہ سے بھی مشکور ہوں… اُنہوں نے مجھے کافی اردو سکھائی۔ جی ہاں، ڈاکٹر صاحب محض منظر کو اپنی کیفیات کی روشنی میں بیان ہی نہیں کرتے بلکہ اردو کے الفاظ کا ”اصل تلفظ“ استعمال کرتے ہیں جو فی زمانہ دیانت داری کی طرح غائب ہوتا جا رہا ہے۔ ذرا اِدھر دیکھیے:
پیمائش غلط لفظ ہے، اصل لفظ ہے ”پیمایش“… اِسی طرح ”قائم“ غلط ہے، ”قایم“ صحیح لفظ ہے۔ گنجایش، رہایش وغیرہ وہ الفاظ ہیں جن کا تلفظ غلط العام ہو چکا ہے اور ڈاکٹر ھُما اِس بدعت کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ایک مشہور لفظ کو پڑھ کر میں بہت حیران ہوا۔ ہم جو ”خدوخال“ لکھتے ہیں، یہ بھی غلط ہے، اصل لفظ ہے ”خط و خال“۔ اِسی طرح کے بے شمار الفاظ ہیں جو ڈاکٹر صاحب نے عرق ریز تحقیق کے ذریعے اُن کو ڈرِپیں لگا کر دوبارہ ہوش عطا کیا ہے۔
چونکہ وہ ڈاکٹر صاحب ہیں… ایم بی بی ایس ڈاکٹر… لہذا گزشتہ کتب کی طرح کتاب ”کے-ٹو“ میں بھی اتنا ہوم ورک کیا کہ کوئی غیرِ ڈاکٹر مصنف اتنی گہرائی میں نہیں جا سکتا۔ کتاب کے اختتام تک مجھے یقین ہو گیا کہ اردو میں کے-ٹو پر جتنی تحقیق ہو سکتی تھی، ڈاکٹر صاحب نے ایک بیش بہا حصہ اِس میں شامل کر دیا ہے۔ امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے عزیز و اقربا اور احباب کے علاوہ ہماری قوم بھی اِس تحقیق سے مستفید ہو گی۔
غونڈوغورو-لا کی خطرناکیوں کے متعلق ڈاکٹر صاحب نے امت کو ڈرایا ہے جس سے کافی سارے نوجوان اُدھر جانے سے گھبرائیں گے۔ انہوں نے اصل میں یہ پیغام دیا ہے کہ وہاں تیاری سے جائیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کی ایپروچ سے متفق ہوں کہ جو چیز خطرناک ہو، اُس کی خطرناکی کو چھپانا نہیں چاہیے۔ غونڈوغورو-لا واقعی کوہ پیمائی کے ذیل میں آتا ہے… اور کوہ پیمائی تیاری مانگتی ہے… ایویں خوامخواہ غونڈوغورو کی بلندی سے آٹھ ہزاری چوٹیوں کو دیکھنے کا خواب لے کر وہاں پہنچ جانا، پھر لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ جانا درست نہیں۔ فطرت اور قسمت کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ اِس سلسلے میں ہم جانتے ہیں کہ ”نیچر ایکسپلوررز“ گروپ کے ڈائریکٹر نے غونڈوغورو-لا سے اترائی کے وقت کسی وجہ سے جامِ شہادت نوش کیا حالانکہ وہ منجھے ہوئے کوہ نورد تھے۔ مجھے یہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ کوہ پیمائی کوہ نوردی کے مقابلے میں حد سے زیادہ خطرناک ہے۔ ہرمن بول نامی کوہ پیما نانگاپربت کو بغیر آکسیجن سر کر لیتا ہے مگر چوغولیزا جیسی معصوم چوٹی پر حادثے کا شکار ہو کر وہیں دفن ہو جاتا ہے۔ اِس میں قسمت کا بہت عمل دخل ہے مگر بندے کو اپنی طرف سے ہوم ورک مکمل رکھنا چاہیے۔
کتاب میں کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں میں تھوڑی سی رہنمائی چاہوں گا:
؎ پیج نمبر 120 پر درج ہے ”رضا اور اُس کا خبطی گائیڈ“۔ میرا خیال ہے کہ رضا خود گائیڈ تھا، شاید آپ خبطی کلائینٹ کہنا چاہ رہے ہیں۔
؎ ایک جگہ آپ نے ”گلوبل وارمنگ“ کو ”کائنات کا درجہ حرارت“ لکھا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے ادبی روایت کے مطابق کائنات کو دنیا کے معنوں میں لیا ہے جو کہ صحیح ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کائنات کا درجہ حرارت ایک جیسا رہتا ہے 270- سینٹی گریڈ۔ البتہ دنیا کا اوسطاً درجہ حرارت بدلتا رہتا ہے۔
؎ پیج 257 پر جو آخری باب ہے، اُس کے آغاز میں آپ نے جیالوجی کے مطابق زمین کی ابتدائی حالت کا بیان فرمایا ہے کہ ابتدا میں یہ زمین پانی کا گولہ تھا۔ میں نے جو ارضیات کو پڑھا ہے، اُس کے مطابق جب خلا میں بڑی بڑی چٹانیں کششِ ثقل کے باعث جمع ہو کر ہماری زمین بنیں تو چٹانوں کے شدید دباؤ کے تحت وہ چٹانیں پگھل کر لاوا بن گئیں۔ نرم چٹانوں کے باعث زمین کو گولائی عطا ہوئی۔ بعد میں زیرِزمین گیسوں اور خلا سے آتے کومٹس کے باعث پانی زمین پر پھیلنا شروع ہوا جس نے زمین کو ”کُول ڈاؤن“ کرنے میں مدد دی۔ ٹیکٹونک پلیٹس یا ارضیاتی خطے پانی پر تیر کر ایک دوسرے کے قریب نہیں آئے بلکہ زیرِسطح لاوا پر تیر کر ایک دوسرے کے قریب آئے۔ یہ لاوا پوری زمین کا 98٪ ہے۔ اگر میں آپ کا پوائنٹ نہیں سمجھا تو مجھے ضرور گائیڈ کیجیے گا۔
آخر میں، جو لوگ کنکورڈیا اور کے-ٹو بیس کیمپ جانا چاہتے ہیں، میرا مشورہ ہے کہ ایزوبل شاء اور تارڑ صاحب کے علاوہ ڈاکٹر ھُما کی یہ کتاب بھی ضرور پڑھیں، بے انتہا فائدہ ہو گا۔ ایک ڈاکٹر جو ہزاروں دواؤں کے نام، فائدے، کھانے کا صحیح اور غلط طریقہ، اور دیگر لائف سیونگ معلومات فنگر ٹپس پر رکھتے ہیں، اُنہوں نے کوہ نوردی کو کیسے بیان کیا ہو گا… خود ہی سمجھ جائیں۔
اگلی کتاب کا شدت سے انتظار رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب کو ایک تصویر میں درہ ہیسپر پر دیکھا تھا، شاید اُسی پر کتاب لکھنے کا ارادہ فرما رہے ہوں۔
دعاؤں اور علم کا طلب گار……… احسن۔
Related
Be the first to review “سفرنامہ کے ٹو | Safar Namah K2” Cancel reply
Reviews
There are no reviews yet.