جواب تو دینا ہوگا | خالد محمود ایڈووکیٹ | Jawab To Dyna Hoga
Sale!₨ 400.00 ₨ 500.00
زیر نظر کتاب میں وطن عزیز کو در پیش مسائل کے تناظر میں معاہدہ عمرانی کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی ہے اور ایک طرف جین آسٹن کے مقولے ” مقدر کا ہر محکم قانون ہے ” اور تھامس ہابس کی ” مطلق العنان بادشاہت ” کو موضوع بحث بنایا ہے تو دوسری طرف جان لاک کے شاہ اور پارلیمان کے اتحاد پر مبنی معاہدہ عمرانی اور روسو کے عوامی رائے ” پر مشتمل نظریہ حیات پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اپنے افکار کی بنیاد روسو کے اس مشہور مقولے پر رکھی ہے کہ ” انسان آزاد پیدا ہو تھا لیکن وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے”۔ فاضل مصنف نے وطن عزیز کی ہر لحہ کرتی، بگڑتی، سمٹتی ، الجھتی اور نہ سنبھلنے والی گراوٹ کی سب سے بڑی وجہ عدم جواب دہی (Non-Accountability) یعنی جواب دہی کا فقدان قرار دیا ہے اور اپنے جاندار استدلال سے ثابت کیا ہے کہ جب تک ملک کے تمام اداروں میں بلا امتیاز غیرے جواب دہی کا تصور یقینی نہیں بنایا جاتا، ترقی و خوشحالی کا خواب کسی قیمت پر بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے اپنے اعمال اور عمال (Rulers) کا احتساب بغیر کسی روک ٹوک یا اقربا پروری کے کیا اور کسی مجبوری، مصلحت یا خواہش نفسانی کو اپنے قریب نہ بھٹکنے دیا، وہ تو میں آج بحر و بر پر راج کر رہی ہیں اور انہی قوموں کے ہاں ترقی و خوشحالی، امن و بھائی چارہ، محبت و مروت اور انسان دوستی کا دور دورہ ہے۔ اور دوسری طرف بادشاہت اور پھر نو آبادیاتی نظام کے شکنجے سے آزاد ہونے والا تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک کا نظام ہے جہاں غیر ملکی آقاؤں کے جانے کے بعد اقتدار مقامی جاگیر داروں، وڈیروں، صنعت کاروں، شاہی نوکروں اور ان کے پروردہ ایک مخصوص طبقہ کے ہاتھوں آگیا جس نے مذہب، وطن اور قانون کے نام پر لوٹ مار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا اور ملک کے بجائے مفاد اور ملت کے بجائے مصلحت کو ترجیح دی جس کی وجہ سے نظام پر قانون کی گرفت اور حکمرانی نہ رہی۔ ہر ایک نے اپنی اپنی تجوریاں بھریں، جو کوئی آیا کھا گیا،
صفحات 144
Reviews
There are no reviews yet.