سرکار دربار کے التفات کے منتظر جیسی تاریخ لکھ سکتے ہیں اس کی ایک سے ایک بڑی
” قابل احترام” مثال ہے مگر ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی اور ڈاکٹر خالد خورشید کمال ( کے کے عزیز) نے قومی تاریخ کے لئے ایک متبادل بیانیہ دیا بڑی جرات کے ساتھ مگر تاریخ کو بہت آسان زبان میں ترقی پسند جمہوری نقطہ نظر کے ساتھ عوام کی تربیت کے لئے جس بے مثال شخص نے پیش کیا وہ ڈاکٹر مبارک علی ہیں ہمارے ایک بزرگ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کی طرح بصارت کے حوالے سے ان کے لئے چند برسوں میں مشکلات آئی ہیں مگر ان کا قلم رواں ہے زباں بن کر ۔
ان کی دو آپ بیتیاں ( “در در ٹھوکر کھائے” اور “میری دنیا”) شائع ہو چکی ہیں “شمع ہر رنگ میں جلتی ہے” فکشن ہاوس لاہور نے 2019 میں آپ بیتی کے طور پر ہی شائع کی ہے لیکن اس میں ان کے بہت عمدہ اور موثر مضامین ہیں جنہیں ابواب کی صورت دی گئی ہے جیسے میری تاریخ نویسی کا ابتدائی زمانہ ، قوت برداشت ، ایمانداری اور کرپشن ، خوشامد اور سازش ، میرے مخالفین ، لکھنے کا شوق اور غالب کا سہارا وغیرہ۔ ان کے پبلشر کامریڈ ظہور نے کل بتایا کہ اندرون سندھ اور بلوچستان میں جس قدر ڈاکٹر مبارک علی کو پڑھا جا رہا ہے اردو کا کوئی مصنف اس درجے پر نہیں پہنچتا کیوں ؟ دو چار فقرے دیکھئے :
” ڈاکٹر احسن فاروقی اپنے خلاف سازش کرنے والے ایک ” پروفیسر صاحب ” کا ذکر کر رہے تھے کسی نے کہا ڈاکٹر صاحب رہنے دیجئے وہ اب مر چکے ڈاکٹر احسن فاروقی تڑاخ سے بولے “واہ میاں اگر مرنے والوں کو معاف کرتے رہیں تو پھر تاریخ کیسے لکھی جائے گی “
” صمد بہرنگی نے شاہ ایران کے خلاف ایک افسانہ لکھا ساواک نے اسے اغوا کیا مار کر اس کی لاش دریا میں پھینک دی کہ اس نے مچھلیوں کی زبانی انقلاب کی حکمت عملی بیان کرنے کی کوشش کی تھی “
” جب میری بھلائی کا بدلہ برائی سے ملا تو میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ اب کسی کے ساتھ نیکی نہیں کروں گا “
” پاکستان کے انگریزی داں طبقے کو شاید انگریزی تو آتی ہے مگر یہ لوگ انگلش کلچر سے واقف نہیں شائستگی کی جگہ رعونت لے لیتی ہے “
Related
Be the first to review “شمع ہر رنگ میں جلتی ہے | Shamaa Har Rang Mein Jalti hay” Cancel reply
Reviews
There are no reviews yet.