تعزیہ تاریخ ، تہذیب ، روایت ، فن و ثقا فت کا مرقع

Sale!

 500.00  600.00

Add to wishlist
Share
    تعزیہ تاریخ کے آئینے میں
    تعزیہ برآمد کرنے کی با قاعدہ مرتب تاریخ تو ہمیں نہیں ملتی کہ تعزیہ کا آغاز کس سال میں ہوا تھا لیکن برصغیر میں تعزیہ سازی کی روایت کا جائزہ لیا جائے تو پتہ جلتا ہے کہ تعزیہ کے آغاز کی پہلی روایت مغل بادشاہ تیمور نے اپنے دور حکمرانی 1370 ، 1405ء میں رکھی تھی کہا جاتا ہے کہ چودھویں صدی میں امیر تیمور نے کربلا ( عراق ) کا دورہ کیا اور وہاں سے حضرت امام حسین کی شبیہ دہلی لے کر آیا اور اس شبیہ پر خاک کربلا کا لیپ کیا گیا تھا اور اس شبیہ کو مغلیہ طرز تعمیر کے مطابق تعمیر بھی کیا گیا اور بعد ازاں مغلیہ طرز تعمیر کے ساتھ اونچے تعزیے تعمیر کئے جاتے رہے اور یوں امیر تیمور کی پیروی میں ہندوستان بھر میں تعزیوں کی تعمیر کی روایت پڑ گئی اور آنے والے وقتوں میں لکڑی کے ساتھ ساتھ کھجور کے تنے، کتوں اور پلاسٹک کین کے ساتھ بھی تعزیے بنائے جانے لگے جن کو عاشور کے دن دریا برد کر دیا جاتا تھا اور اسے تعزیہ ٹھنڈا کرنے کی رسم بھی کہتے ہیں۔ امیر تیمور کے دور سے لیکر مغلیہ، سکھ اور انگریز عہد حکومت اور آج تک تعزیہ سازی کی یہ رسم جاری و ساری ہے اور اسی طرح محرم الحرام میں تعزیوں کا جلوس برآمد ہوتا ہے تعزیہ سازی کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر تعزیے مغلیہ دور سے شیعہ کی بجائے سنی حضرات کی جانب سے بنائے جاتے ہیں اور آج بھی پاک و ہند میں اکثر قدیم ترین تعزیوں کے لائسنس دارسنی بریلوی
    تعزیہ
    تاریخ ، تہذیب ، روایت ، فن و ثقا فت کا مرقع
    صفحات 190

    حضرات ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ تعزیہ سازی میں ہندؤںاور سکھوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔

    Reviews

    There are no reviews yet.

    Be the first to review “تعزیہ تاریخ ، تہذیب ، روایت ، فن و ثقا فت کا مرقع”

    Your email address will not be published. Required fields are marked *