امیر تیمور دنیا کا مشہور بادشاہ اور فاتح گزرا ہے۔ اس نے قریباً10 ملک فتح کئے اوردو لاکھ لوگوں کو قتل کر کے ان کے سروں کے مینار بنا دئیے۔ اس نے زندگی میں ہزاروں شہر بھی جلا کر راکھ کر دئیے۔ یہ ازبکستان کا رہنے والا تھا اور اس کے گاؤں کا نام شہرے سبز تھا۔ یہ گاؤں سمرقند کے شہرسے 80کلومیٹر کے فاصلے پر تھاتھا‘ امیر تیمور کی پوری زندگی لڑتے گزر گئی‘ یہ لمبی لمبی فتوحات کے بعد واپس اپنے وطن آتا تھا۔ ایک آدھ سال وہاں رہتا تھا اور اس کے بعد کسی نئی مہم پر روانہ ہو جاتا تھا۔ اس کی فتوحات کے 25سال 1395ء میں پورے ہوئے‘ امیر تیمور نے اس موقع کو یادگار بنانے کا فیصلہ کیا‘ اس نے ایک شاندار جشن کا اہتمام کیا‘ اس نے شہر تمام لوگوں کو کھانے کی کو کھانے کی دعوت دی‘ شہر کے سارے لوگ جمع ہو گئے‘ اس مجمعے میں ایک لوہار بھی شامل تھا‘ یہ لوہار گھوڑوں کے پیروں میں نعل لگاتا تھا۔ امیر تیمور اپنی رعایا کے ساتھ مل کر جشن منا رہا تھا کہ یہ لوہاراس تک پہنچا‘ اس نے جھک کر بادشاہ کو سلام کیا اور اس کے بعد عرض کیا ”جناب اگر آپ مجھے جان کی امان دے دیں تو میں کچھ عرض کروں“ بادشاہ نے اسے جان کی امان دے دی‘ لوہار نے عرض کیا ”جناب جب آپ سبز گاؤں کے ایک چھوٹے سے سپاہی تھے‘ میں اس وقت گھوڑوں کے سموں میں نعلیں لگاتا تھا‘ پھر آپ امیر قازعان کی فوج میں شامل ہو گئے‘ میں اس وقت بھی لوہار تھا اور گھوڑوں کے سموں میں نعلیں لگاتا تھا‘ آپ فوج کے سپہ سالار بن گئے لیکن میں لوہار کا لوہار رہا‘ آپ ہرات کے بادشاہ بن گئے لیکن میں لوہار کا لوہار رہا۔ آپ نے طوس فتح کر لیا لیکن میں لوہار کا لوہار رہا‘ اس کے بعد آپ دنیا فتح کرنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے‘ آپ نے بخارا بھی فتح کر لیا‘ آپ نے سیستان بھی فتح کر لیا‘ آپ نے آذربائیجان‘ فارس‘ اصفہان اور دہلی تک فتح کر لیا اور آج آپ اپنی فتوحات کے پچیس سال پورے ہونے پر جشن منا رہے ہیں لیکن میں آج بھی لوہار کا لوہار ہوں۔ ان پچیس برسوں میں تیمور امیر تیمور ہو گیا لیکن میں لوہار کا لوہار رہا۔ امیر تیمور خاموشی سے سنتا رہا‘ لوہار نے عرض کیا ”جناب میں اس دن اس سلطنت کو ترقی یافتہ اور آپ کو دنیا کا سب سے بڑا فاتح سمجھوں گا جس دن میں لوہار نہیں رہوں گا‘ جس دن مجھے آپ کے برابر بیٹھنے کا موقع ملے گا‘ جس دن آپ جیسے لوگ میری بھی عزت کریں گے‘ میں اس دن خود کو اس فتح کے جشن کے قابل سمجھوں گا۔ دنیا کا ہر انسان اس دنیا کو‘ اپنے ماحول کو‘ اپنے اردگرد ہونے والے واقعات کو ہمیشہ اپنے مسئلے کی نظر سے دیکھتا ہے‘ بیمار شخص کو سونے چاندی کی دیواریں بیمار دکھائی دیتی ہیں اور پیاسے کو چاند کی چاندنی میں برف نظر آتی ہے اور ہم لوگ اس وقت تک خوشحالی‘ امن‘ سکون‘ ترقی‘ بنیادی حقوق اور آزادی کو تسلیم نہیں کرتے جب تک یہ ہم تک نہیں پہنچ پاتی۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے ہم بھی جانتے ہیں اور جس سے آپ بھی واقف ہیں لیکن افسوس ہماری پارلیمنٹ‘ ہمارے پارلیمنٹرینز اور ہماری حکومت اس حقیقت سے آگاہ نہیں۔ اس ملک کے عام شہری کے آٹھ بڑے مسائل ہیں‘ ان میں مہنگائی‘ بے روزگاری‘ لوڈ شیڈنگ‘ ناانصافی‘ تعلیم کا فقدان‘ صحت کی سہولیات کا ناپید ہونا‘ حق تلفی اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی شامل ہیں۔ عام لوگ ان مسئلوں کے حل کیلئے ہرالیکشن کا انتظار کرتے ہیں‘ یہ اپنے نمائندوں کو پارلیمنٹ میں بھجواتے ہیں اور پارلیمنٹ ہاؤس پر نظریں گاڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ اب ان کے نمائندے ان کیلئے کھانے پینے کی اشیاء سستی کر دیں گے‘ ان کو روزگار فراہم کریں گے‘ لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلائیں گے۔انصاف‘ تعلیم‘ صحت اور بنیادی سہولیات کا بندوبست کریں گے لیکن افسوس ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔ہماری ہر آنے والی حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن اصل حکمرانی وہی ہوتی ہے جس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں”
Reviews
There are no reviews yet.