جناب مرزا حبیب الرحمن صاحب کا ایک شاندار علمی و تحقیقی تحفہ
“احوال و آثار خواجہ فریدؒ”
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
برصغیر کے نامور صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید23 دسمبر 1845ء کو چاچڑاں،ریاست بہاول پور میں پیدا ہوئے۔والد کا نام خواجہ خدا بخش عرف محبوب الٰہی تھا۔آپ کے آباؤ اجداد فاتحین سندھ کے ساتھ عرب سے سندھ میں داخل ہوئے تھے۔ خاندان کے ایک مرید مٹھن خان کے نام سے”کوٹ مٹھن” کے نام سے ایک قصبہ آباد ہوا جہاں پہلے آپ کے اجداد نے سکونت اختیار کی۔بعد ازاں چاچڑاں شریف منتقل ہوگئے۔ آپ کی پیدائش بھی وہیں پر ہوئی۔آٹھ برس کی عمر میں والد کا انتقال ہوگیا۔جس کے بعد آپ چار سال تک شاہی محل میں نواب خاندان کی سرپرستی میں رہے۔ریاست بہاولپور کے نواب خاندان کے تمام افراد آپ سے گہری عقیدت رکھتے تھے اور آپ کے مریدین میں شامل تھے۔
بعد میں 13 سال کی عمر میں چاچڑان حاضر ہوکر بڑے بھائی خواجہ غلام فخرالدین کے ہاتھ پر بیعت کی جو ایک بہت بڑی روحانی شخصیت تھے۔ آپ نے ان سے روحانی فیض حاصل کیا۔ستائیس سال کی عمر میں بڑے بھائی کا بھی انتقال ہوگیا ۔جس کے بعد آپ خود مسند نشیں ہوئے اور والدین سے ملنے والے روحانی فیض کو جاری رکھا۔خواجہ غلام فرید نے مسندنشیں ہونے کے بعد روزانہ کی بنیاد پر لنگر خانے کا اہتمام کیا۔آپ بہت سخی دل اور درویش صفت انسان تھے۔ آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے پاس جو کچھ ہوتا تھا شام تک لوگوں کو بانٹ دیتے تھے اور خود گندم کی روٹی اور گائے کے دودھ سے گزر بسر کرتے تھے۔
خواجہ غلام فرید نے اپنے روحانی تجربات کو شاعری کے ذریعے عام لوگوں تک اور اپنے چاہنے والوں تک پہنچانے کا فیصلہ کیا اور سرائیکی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا ۔”کافی”آپ کی شاعری کی سب سے نمایاں صنف ہے، جس کو سرائیکی ادب کا بہت بڑا سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ آپ کی شاعری تصوف اور معرفت کے خزانوں سے بھری ہوئی اور اس میں تصوف کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے ۔ زندگی کے معاملات کا کوئی زاویہ ایسا نہیں جس کا احاطہ ان کی شاعری میں نہ کیا گیا ہو ۔ اس حوالے سے خواجہ فریدؒ کے ہاں فکری اعتبار سے ایسا تنوع موجود ہے جو ان کے علاوہ کسی دوسرے شاعر کے ہاں دکھائی نہیں دیتا ۔خواجہ فریدؒ کی کافیوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہاں لفظ و معنی کا ایک اور ہی جہاں آباد ہے ۔ اس تنا ظر میں انہوں نے جو علامتی اور استعاراتی نظام تخلیق کیا ہے اس کی اساس انکے اپنے وسیب پر ہے اور اس وسیب کا پورا عکس ان کے اسلوب و بیان کی توانائی اور رعنائی کے ساتھ ابھرا ہے۔
خواجہ صاحب کے کلام میں عشق حقیقی اور عشق مجازی دونوں کا سراغ ملتا ہے لیکن عشق حقیقی کا رنگ آپ کی شاعری میں زیادہ نمایاں اور غالب ہے۔ آپ کا نظریہ ہمہ اوست تھا اور آپ وحدت الوجود کے قائل تے۔ پروفیسر دلشاد کلانچوی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ خواجہ صاحب عموماً حالت وجد میں شعر کہتے تھے اور جب آپ پر الہامی کیفیت طاری ہوتی تھی تو آپ بڑی بڑی کافیاں وجد کی حالت میں کہہ جاتے تھے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہر وقت ”فکر سخن ”میں رہنا ان کا معمول تھا۔
حضرت علامہ اقبال خواجہ صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ “جس قوم میں خواجہ فرید جیسے صوفی شاعر اور ان کی شاعری موجود ہو تو اس قوم میں عشق و محبت کا نہ ہونا تعجب کا باعث ہے۔ “اس لیے آپ کی شاعری میں حسن و عشق کا چرچا بھی ملتا ہے۔ مولانا کوثرنیازی کے بقول ” خواجہ صاحب سرائیکی زبان بولنے والوں اور سرائیکی علاقے کے لوگوں کے روحانی بادشاہ ہیں اور آپ کی شاعری لاکھوں دلوں پر راج کرتی ہے۔”
یہی وجہ ہے کہ خواجہ صاحب کا کلام اپنی شاعرانہ لطافت کے باعث سرائیکی خطے کے ہر خاص و عام میں اس لیے یکساں مقبول ہے کہ اُس میں زندگی کی امید کا پیغام ملتا ہے۔آپ کے کلام کے ہر رنگ میں ایک مٹھاس اور شیرینی پائی جاتی ہے جو کہ سرائیکی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف سرائیکی خطے کی ثقافت کو اجاگر کیا ہے بلکہ محبت، اخوت اور بھائی چارے کا درس بھی دیا ہے۔
خواجہ غلام فرید کا انتقال 23جولائی 1901کو 56 سال کی عمر میں ہوا۔ ہر سال 5ربیع الثانی کو آپ کا عرس” کوٹ مٹھن” شریف میں انتہائی عقیدت سے منایا جاتا ہے اور ضلعی سطح پر عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے۔
آپ کی شاعری تصوف اور معرفت کے خزانوں سے بھری پڑی ہے۔ آپ کی دو سو سے زیادہ کافیاں مطبوعہ ہیں اور دیوان فرید میں شامل ہیں۔دیوان فرید کا پہلا مجموعہ آپ کی زندگی میں ہی شائع ہو گیا تھا، جس میں کافیاں اور ڈوہڑے بھی شامل تھیں۔ ماہرین فریدیات آپ کو سرائیکی زبان کی شاعری کا رومی قرار دیتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح رومی اپنے انقلابی پیغام کے ذریعے لاکھوں دلوں پر راج کرتے ہیں۔ اسی طرح خواجہ صاحب بھی اپنی آفاقی شاعری کی بنا پر وسیب کے لاکھوں دلوں پر راج کرتے ہیں۔ خواجہ فریدؒ نے سات زبانوں میں شاعری کی ہے مگر سب سے زیادہ پذیرائی انکے سرائیکی کلام کو ملی ہے ۔ حضرت خواجہ فرید کے پائے کا شاعر سوسال بعد بھی سرائیکی وسیب میں پیدا نہیں ہوا ۔
“احوال و آثار خواجہ فرید”
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جناب انور بودلہ کی حضرت خواجہ غلام فرید پر شاندار تحقیقی کتاب ہے جو کہ اتوار 7 فروری 2021ء کو خان پور سے تشریف لائے ممتاز علمی و ادبی سیاسی اور سماجی شخصیت برادرم مرزا حبیب الرحمن صاحب نے ہمیں تحفتاً پیش کی۔انور بودلہ کی یہ کتاب گیارہ ابواب”خواجہ غلام فرید اور مورخین”،”خواجہ فرید کا نکاح سوم اور چار ماہرین فریدیات کے مغالطے”،”تعارف ملفوظات خواجہ فرید”،”خواجہ فرید کا ایک نادر فتویٰ”،خواجہ فرید کے چچا زاد بھائی”،”بسلسلہ دبستان خواجہ فرید”،”خواجہ فرید کے اسفار”،”خواجہ فرید کی تاریخ گوئی”،”پیرفیض الامین فاروقی کی تاریخ گوئی”، “صاحبزادہ فیض الامین فاروقی”اور”حیات خواجہ فرید ماہ وسال کے آئینے میں”پر مشتمل ہے۔جبکہ کتاب کا اظہار تشکر جناب مرزا حبیب الرحمن اور محبوب تابش کے نام منسوب ہے۔
جناب محبوب تابش کہتے ہیں کہ “انور بودلہ سرائیکی خطے کے ایک فقیر منش کھوج کار اور رسیا علم شخصیت ہیں۔”خواجہ فرید احوال و آثار “ان کی اسی کھوج اور محبت کا حاصل ہے۔خانوادہ فرید کی علمی شخصیت طاہر محمود کوریجہ کی کتاب”خواجہ فرید اور اُن کا خاندان”کے بعد بودلہ صاحب کی یہ کتاب اپنی نوعیت کی اہم کتاب شمار ہوگی۔اس کام کو انور بودلہ نے نہایت عرق ریزی اور جاں فشانی سے سرانجام دیا ہے۔”
حضرت خواجہ غلام فرید کے حوالے سے مولوی عبدالرشید ارشد کی ایک تحریر کی گرفت کرتے ہوئے انور بودلہ صاحب لکھتے ہیں کہ “مریدان تسمہ پا نے کیا کیا گل کھلائے ہیں،جھوٹ کی کوئی حد ہوتی ہے مولوی عبدالرشید ارشد نے حقائق کو مسخ کرتے ہوئے مذکورہ بالا جھوٹا واقعہ اپنے مضمون میں تحریر کردیا ہے ۔مضمون نگار قیامت والے دن اپنے ممدوح حضرت علامہ انور شاہ جاٹ کشمیری کا کیسے سامنا کریں گے ۔۔۔۔اصل میں جب فرقہ پرستی دماغ پر غالب آجائے تو تہذیب کا دامن چھوٹ جاتا ہے پھر جس کے جو جی میں آئے صفحہ قرطاس پر لغو گوئی کرتا رہتا ہے۔”
عبدالرشید ارشد کی ایک اور غلط بیانی کی گرفت کرتے ہوئے انور بودلہ صاحب مقدمہ بہاول پور کے حوالے سے آگے چل کر لکھتے ہیں کہ “جسٹس محمد اکبر خان کی تحریر سے مترشح ہوتا ہے کہ موصوف جج علمائے دیوبند کے طویل بیانات سے مطمئن نہیں ہوا تھا۔جج موصوف اگر مطمئن ہوئے تو علامہ غلام احمد پرویز (جسے عرف عام میں منکر حدیث نیچری دہریہ کافر تک کہا جاتا ہے)کے مضمون سے،اس مضمون کی بنیاد پر جسٹس محمد اکبر خان نےاپنا مرزائیت کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔جسٹس محمد اکبر خان کی تحریر سے مولوی عبدالرشید ارشد کے تصوراتی محلات دھڑام سے گر جاتے ہیں۔”
کتاب کا پہلا باب”خواجہ فرید اور مورخین “دراصل ایسی ہی غلط اور جھوٹی روایات کی شاندار علمی و تحقیقی گرفت پر مبنی ہے۔چنانچہ اس تناظر میں بلا تردد یہ کہا جاسکتا ہے کہ انور بودلہ صاحب کی یہ علمی کاوش خواجہ غلام فرید کی شخصیت کے حوالے سے کئی نئے گوشے کھولنے اور بہت سے تاریخی مغالطے درست کرنے کی بھی عمدہ کوشش ہے۔ہم اس عمدہ کوشش پر جناب انور بودلہ صاحب کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے برادرم مرزا حبیب الرحمن صاحب کے بھی بے حد مشکور ہیں کہ ان کے اس شاندار تحقیقی تحفہ کی بدولت نہ صرف یہ ہماری معلومات میں گرانقدر اضافہ ہوا بلکہ حضرت خواجہ فرید کی زندگی اور شخصیت کے حوالے سے بھی کئی اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔اہل ذوق کے لیے 272 صفحات پر محیط یہ کتاب فکشن ہاوس نے شائع کی ہے۔
محمداحمد ترازی
مورخہ 9 فروری 2021ء کراچی
Related
Be the first to review “احوال و آثار خواجہ فریدؒ” Cancel reply
Reviews
There are no reviews yet.